کبھی یوں بھی آمیری
آنکھ میں کہ میری نظر کو خبر نہ ہو
مجھے ایک رات نواز دے مگر اس کے بعد سحر نہ ہو
وہ بڑا رحیم و کریم ہے مجھے یہ صفت بھی عطا کرے
تجھے بھولنے کی دعا کروں تو دعا میں میری اثر نہ ہو
میرے بازؤں میں تھکی تھکی، ابھی محوِ خواب ہے چاندنی
نہ اٹھے ستاروں کی پالکی، ابھی آہٹوں کا گزرنہ ہو
یہ غزل کہ جیسے ہرن کی آنکھوں میں پچھلی رات کی چاندنی
نہ بجھے خرابی کی روشنی، کبھی بے چارگی یہ گھر نہ ہو
وہ فراق ہو یا وصال ہو، تیری یاد مہکے گی ایک دن
وہ گلاب بن کے کھلے گا کیا، جو چراغ بن کے جلانہ ہو
کبھی دھوپ دے، کبھی بدلیاں، دل و جاں سے دونوں قبول ہیں
مگر اس نگر میں نہ قید کر جہاں زندگی کی ہوا نہ ہو
کبھی دن کی دھوپ میں جھوم کے، کبھی شب کے پھول کوچوم کے
یونہی ساتھ ساتھ چلیں صدا کبھی ختم اپنا سفر نہ ہو
میرے پاس میرے حبیب آ ، ذرا اور دل کے قریب آ
تجھے دھڑکنوں میں بسا لوں میں کہ بچھڑنے کا کبھی ڈر نہ ہو
مجھے ایک رات نواز دے مگر اس کے بعد سحر نہ ہو
وہ بڑا رحیم و کریم ہے مجھے یہ صفت بھی عطا کرے
تجھے بھولنے کی دعا کروں تو دعا میں میری اثر نہ ہو
میرے بازؤں میں تھکی تھکی، ابھی محوِ خواب ہے چاندنی
نہ اٹھے ستاروں کی پالکی، ابھی آہٹوں کا گزرنہ ہو
یہ غزل کہ جیسے ہرن کی آنکھوں میں پچھلی رات کی چاندنی
نہ بجھے خرابی کی روشنی، کبھی بے چارگی یہ گھر نہ ہو
وہ فراق ہو یا وصال ہو، تیری یاد مہکے گی ایک دن
وہ گلاب بن کے کھلے گا کیا، جو چراغ بن کے جلانہ ہو
کبھی دھوپ دے، کبھی بدلیاں، دل و جاں سے دونوں قبول ہیں
مگر اس نگر میں نہ قید کر جہاں زندگی کی ہوا نہ ہو
کبھی دن کی دھوپ میں جھوم کے، کبھی شب کے پھول کوچوم کے
یونہی ساتھ ساتھ چلیں صدا کبھی ختم اپنا سفر نہ ہو
میرے پاس میرے حبیب آ ، ذرا اور دل کے قریب آ
تجھے دھڑکنوں میں بسا لوں میں کہ بچھڑنے کا کبھی ڈر نہ ہو
No comments:
Post a Comment