کہاں آ کے رکنے تھے راستے! کہاں موڑ تھا !
اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ، جو نہیں ملا اسے بھول جا
وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر! میری بات سن اسے بھول جا ، اسے بھول جا
میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں ، تیری آس ، تیر ے گمان میں
صبا کہہ گئی میرے کان میں ، میرے ساتھ آ، اسے بھول جا
کہیں چاکِ جاں کا رفو نہیں، کسی آستیں پہ لہو نہیں
کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خوں بہا، اسے بھول جا
کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم، تیرے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا، تو بھی مسکرا ، اسے بھول جا
کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں، غمِ زندگی کے فشار میں
وہ جو درد تھا تیرے بخت میں، سو وہ ہو گیا، اسے بھول جا
نہ وہ آنکھ ہی تیری آنکھ تھی، نہ وہ خواب ہی تیرا خواب تھا
دلِ منتظر تو یہ کس لیے، تیرا جاگنا، اسے بھول جا
یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا، اسے دیکھ، اس پہ یقیں نہ کر
نہیں عکس کوئی بھی مستقل، سرِ آئینہ ، اسے بھول جا
جو بساطِ جاں ہی الٹ گیا، وہ جو راستے سے پلٹ گیا
اسے روکنے سے حصول کیا، اسے مت بلا، اسے بھول جا
تو یہ کس لیے شبِ ہجر کے، اسے ہر ستارے میں ڈھونڈنا
وہ فلک کہ جس پہ ملے تھے ہم، کوئی اور تھا، اسے بھول جا
تجھے چاند بن کے ملا تھا جو، تیرے ساحلوں پہ کھِلاتھا جو
وہ تھا ایک دریا وصال کا، سو اُتر گیا، اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ، جو نہیں ملا اسے بھول جا
وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر! میری بات سن اسے بھول جا ، اسے بھول جا
میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں ، تیری آس ، تیر ے گمان میں
صبا کہہ گئی میرے کان میں ، میرے ساتھ آ، اسے بھول جا
کہیں چاکِ جاں کا رفو نہیں، کسی آستیں پہ لہو نہیں
کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خوں بہا، اسے بھول جا
کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم، تیرے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا، تو بھی مسکرا ، اسے بھول جا
کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں، غمِ زندگی کے فشار میں
وہ جو درد تھا تیرے بخت میں، سو وہ ہو گیا، اسے بھول جا
نہ وہ آنکھ ہی تیری آنکھ تھی، نہ وہ خواب ہی تیرا خواب تھا
دلِ منتظر تو یہ کس لیے، تیرا جاگنا، اسے بھول جا
یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا، اسے دیکھ، اس پہ یقیں نہ کر
نہیں عکس کوئی بھی مستقل، سرِ آئینہ ، اسے بھول جا
جو بساطِ جاں ہی الٹ گیا، وہ جو راستے سے پلٹ گیا
اسے روکنے سے حصول کیا، اسے مت بلا، اسے بھول جا
تو یہ کس لیے شبِ ہجر کے، اسے ہر ستارے میں ڈھونڈنا
وہ فلک کہ جس پہ ملے تھے ہم، کوئی اور تھا، اسے بھول جا
تجھے چاند بن کے ملا تھا جو، تیرے ساحلوں پہ کھِلاتھا جو
وہ تھا ایک دریا وصال کا، سو اُتر گیا، اسے بھول جا
No comments:
Post a Comment