اک روز اس نے پیار سے
تھاما تھا میرا ہاتھ
میرے ہاتھ سے اس کے ہاتھ کی خوشبو نہیں جاتی
وہ بہت پیار سے پکارتی تھی میرا نام
میرے کانوں سے اس کی آواز نہیں جاتی
میں بلاتا بھی نہیں تھا اور وہ آ جاتی تھی
اب بلانے پر بھی میری آواز اس تک نہیں جاتی
بس چکی ہے وہ نس نس میں لہو کی طرح
میری روح اس میں اُتر کیوں نہیں جاتی
میں جانتا ہوں یہ شہر یہ راستے اس کے نہیں ہیں
پھر بھی میری آنکھوں سے انتظار کی عادت نہیں جاتی
میرے ہاتھ سے اس کے ہاتھ کی خوشبو نہیں جاتی
وہ بہت پیار سے پکارتی تھی میرا نام
میرے کانوں سے اس کی آواز نہیں جاتی
میں بلاتا بھی نہیں تھا اور وہ آ جاتی تھی
اب بلانے پر بھی میری آواز اس تک نہیں جاتی
بس چکی ہے وہ نس نس میں لہو کی طرح
میری روح اس میں اُتر کیوں نہیں جاتی
میں جانتا ہوں یہ شہر یہ راستے اس کے نہیں ہیں
پھر بھی میری آنکھوں سے انتظار کی عادت نہیں جاتی
No comments:
Post a Comment